У вашего броузера проблема в совместимости с HTML5
﷽
درس قرانِ حکیم مفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویزؔ
سورۃ البقرۃ (2)(آیت نمبر 7 مسئلہ تقدیر اور اس کا حل)
عزیزان من! آج جون 1968ء کی 30 تاریخ ہے اور ہم اپنے قرآنِ کریم کے سلسلۂ نو کی ابتدائی آیات میں ہیں۔ آج سورۃ البقرۃ کی 7 ویں آیت زیرِ درس آئے گی: (2:7)
خدا خود ہی انسانوں کے دلوں پر مہر لگائے اور پھر خود ہی عذاب دے ۔یہ کیوں؟
سابقہ آیت میں‘ میں نے یہ بتایا تھا کہ یہ دو آیات ہیں جن کا صحیح مفہوم سامنے نہ ہونے کی وجہ سے صدیوں سے ہمارے ہاں بڑی الجھنیں سی پیدا ہوتی چلی آرہی ہیں۔ ان میں ایک آیت یہ ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ (2:6) ۔ اس کا عام ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ یہ جو کافر ہیں‘ ان کے لیے برابر ہے چاہے تُو انہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے یا نہ کرے‘ وہ تو ایمان لائیں گے ہی نہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس میں آپ دیکھیے کہ اس مفہوم کی رو سے پہلی دشواری تو یہی آتی ہے کہ اگر کافر ایمان ہی نہیں لائیں گے تو پھر یہ سارا سلسلۂ رشد و ہدایت کیا ہوا؟ یہی کہ وہ کافر ہیں‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بہرحال یہ مرحلہ ہم نے پچھلے درس میں طے کرلیا تھا کہ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے۔ کہا تھا کہ یہ جو اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (2:6) ہے‘ یہ کچھ کرنے کا کام ہے۔ جو لوگ یہ کرتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے بعد اگلی الجھن اس سے پیدا ہوتی ہے کہ خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (2:7) ۔ وہ ایمان کیوں نہیں لائیں گے؟ اس لیے کہ خدا نے ان کے دلوں پر مہریں کردی ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ یہ ترجمہ الجھن در الجھن پیدا کرتا چلا جاتاہے۔ کافر ایمان نہیں لائیں گے تو یہ سارا ہی سلسلۂ رشد و ہدایت (معاذ اللہ) بیکار ہوگیا۔ وہ ایمان لائیں گے کیوں نہیں؟ اس لیے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں۔ چلیے یوں ہی سمجھ لیا کہ یہ تو نظری چیز ہے‘ اور یہ کہ ان کے لیے عَذَابٌ عَظِيمٌ (2:7) ہے اور انہیں بہت بڑا عذاب دیا جائے گا!! اللہ نے مہریں لگا دیں‘ اس لیے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے یا لاسکتے نہیں اور پھر انہیں عذاب بھی دیا جائے گا‘ آخر یہ کیوں؟
صدیوں پہلے غلط کہی ہوئی بات آج تک ذہنوں پر اثر انداز ہورہی ہے
میں نے عرض کیا تھا کہ قرآنِ کریم کا صحیح مفہوم سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کی ساری دشواریاں لاحق ہوتی ہیں۔ اور انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ صدیوں پہلے کسی ایک شخص نے‘ بہرحال انسانی ذہن تو ہے غلطی کر جاتا ہے‘ بات کو غلط سمجھا اور اس کے بعد وہ بات جو آگے چلی ہے تو تقلیداً چلتی آرہی ہے۔ سند یہ ہے کہ اسلاف نے یہ کہہ دیا۔ پہلے تو وہ سلف میں ایک ہی تھا اور وہ جو آگے جوں جوں زمانہ گزرتا چلا گیا‘ وہ سلف اسلاف میں بدلتے چلے گئے۔ اب وہ Snowball (گولہ برف) کی طرح وہ جو اتنی سی غلطی ہے‘ وہ اتنا بڑا ضخیم طو مار بن کر آگے آگئی۔ جوں جوں آگے بڑھی یہ سند اور محکم ہوتی گئی۔ پہلے سلف نے یہ کہا تھا اب اسلاف نے یہ کہا۔
کسی فرد کا سمجھا ہوا قرآن دوسرے کے لیے سند نہیں ہوسکتا